چہ کافرانہ قمار حيات مي بازي
(Armaghan-e-Hijaz-35)
Che Kafarana Qimar-e-Hayat Mee Bazi
(چہ کافرانہ قمارحیات می بازی)
How heretically do you play the game of life?
چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی
مطلب: تو کیا کافروں کی طرح جُوا اپنی زندگی کا کھیلتا ہے ۔ کہ تو زمانے کا ساتھ دیتا ہے اور اپنے آپ سے نہیں ملتا ۔
اے مسلمان تو زندگی کا جوا کس کافرانہ انداز میں کھیل رہا ہے ۔ تو زمانے کے ساتھ تو بنا کر رکھتا ہے لیکن اپنے ساتھ بنا کر نہیں رکھتا ۔ دنیا میں گم ہو کر رہ جانا تو کافروں کا انداز زندگی ہے مسلمان کو تو خود میں گم ہو کر اور اپنی پہچان کر کے دنیا کو اپنے اندر گم کر لینے کا انداز اپنانا چاہیے ۔ دنیا تو مومن کی غلام ہوتی ہے نہ کہ آقا ۔
دِگر بہ مدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی
مطلب: میں جب دینی مدرسوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے مایوسی ہوتی ہے ۔ کہ اب ان میں جنید جسے دل اور غزالی و رازی جیسی بصیرت نہیں ملتی ۔
ایک وقت تھا کہ مسلمانوں میں حضرت جنید بغدادی جیسے عظیم المرتبت ولی اور امام رازی اور امام غزالی جیسے مشہور متکلم، حکیم اور فلسفی پیدا ہوئے تھے جو مسلمانوں کی باطنی اور ظاہری زندگیوں میں اسلام کی روح پھونکتے رہتے تھے ۔ ان کے ذہن و قلب دونوں کو اسلامی افکار و جذبات سے منقش و منور کرتے رہتے تھے لیکن ان کے بعد خصوصاً عہد حاضر میں ہم اسلامی مدرسے اور خانقاہیں تو دیکھتے ہیں مگر ان سے ان جیسے یعنی جنید، غزالی اور رازی لوگ پیدا نہیں ہو رہے ۔
بحکمِ مفتیِ اعظم کہ فطرتِ ازلیست
بدینِ صعوہ حرام است کارِ شہبازی
مطلب: مفتی اعظم کے حکم سے کہ پرانے یعنی ازل سے فطرت کے مطابق ۔ ممولے کے مذہب میں شہباز کے کام حرام ہیں کیونکہ وہ اس کے مقابل نہیں ۔
قدرت کے مفتی اعظم کا یہ فتویٰ ہے کہ قدرت کے قوانین میں ازل سے یہ بات موجود ہے کہ ممولہ کے ضابطہ حیات میں شہباز کے سے کام اختیار کرنا حرام اور ناجائز ہے ۔ لیکن مرد مسلمان یہ فتویٰ تسلیم نہیں کرتا ۔ قدرت کے قوانین میں بے شک ممولے کو ہمیشہ کمزور اور شہباز کو ہمیشہ طاقت ور اور ممولے کو ہمیشہ شکار اور شہباز کو ہمیشہ شکاری مانا جاتا ہے ۔ لیکن مومن جو قدرت کا غلام نہیں بلکہ قدرت اس کی غلام سے اس کو تسلیم نہیں کرتا وہ کبھی ممولہ بن کر شہباز کا شکار نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اگر کہیں ایسا موقع آیا بھی ہے کہ کسی وجہ سے وہ دنیاوی سازوسامان کے لحاظ سے کمزور ہو گیا ہے تو وہ ایمان کی قوت کے بل بوتے پر طاقت وروں سے ٹکراگیا ہے ۔ اور اپنے شکاری کو شکار کر گیا ہے ۔ دنیاوی طاقت کا بھروسہ کافر کو ہوتا ہے لیکن مومن کو اپنے ایمان پر یقین ہوتا ہے اور اس جذبہ کے تحت وہ بے تیغ بھی لڑ جاتا ہے ۔
ہماں فقیہہِ ازل گفت جرہ شاہیں را
بآسماں گروی با ز میں نہ پردازی
ہماں : اسی طرح ۔ فقیہہ ازل: ازل ے فقیہہ نے، قدرت کے ان قوانین کے قانون دان نے ۔ گفت: کہا ۔ جرہ شاہیں : باز کی ایک قسم ۔ را: کو ۔ با آسماں : آسمان پر ۔ گروی: گھوم رہا ہے ۔ باز میں : زمین پر ۔ نہ پردازی: نہیں اڑتا ۔
مطلب: اسی ازلی عالم فقیہ نے شاہیں بچے سے کہا کہ ۔ بلند آسمانوں میں اڑنا اور زمین کے پستی میں نہیں ۔ جس طرح قوانین قدرت کے مفتی کا یہ فتویٰ ہے کہ ممولہ کو باز کے شکار کے طور پر پیدا کیا یا ہے اسی طرح قدرت کی فقہ میں ازل کے فقیہہ (فقہ کے مسائل و قوانین جاننے والے) نے یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ اعلیٰ درجہ کے باز کا کام صرف آسمانوں پر اڑتے رہنا اور فضا میں کمزور پرندوں کا شکار کرنا ہے نہ کہ زمین پر اتر کر ان کا شکار کرنا یا گدھوں کی طرح آ کر مردار کھانا ہے اس میں بھی مسلمان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ تو بھی اعلیٰ شاہین کی طرح اپنے زور بازو سے کمایا ہوا طیب اور حلال رزق کھا نہ کہ دوسروں کا محتاج ہو کر گدھوں اور گیدڑوں جیسی حرام اور مردار خوراک سے پیٹ بھر ۔ ایسا کرنا تیرے شاہین کی طرح آزاد فضا میں سانس لینے اور کسی دوسرے کا محتاج نہ ہونے کے لیے ضروری ہے ۔
منم کہ توبہ نہ کردم ز فاش گوئی ہا
زیبم ایں کہ بسلطاں کنند غمازی
معانی: منم: میں وہ ہوں ۔ توبہ نہ کردم: میں نے توبہ نہیں کی ۔ کردم: میں نے نہیں کی ۔ فاش گوئی کھل کر اور صاف صاف بات کرنا ۔ ز: سے ۔ بہ نیم: ڈر سے ۔ ایں : یہ ۔ بہ سلطاں : بادشاہ سے ۔ کنند: کریں گے ۔ غمازی: چغل خوری ۔
مطلب: میں نے کھل کر بات کہنے سے توبہ نہیں کی کہ مجھے ڈر تھا ۔ کہ لوگ بادشاہ وقت سے میری چغلی کھائیں گے ۔ میں نے اس ڈر سے کہ لوگ بادشاہ وقت سے میری چغلی کھائیں گے صاف صاف اور کھل کر حق کی بات کہنا نہیں چھوڑی اور جابروں اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے گریز نہیں کیا لوگوں نے مجھے کہا کہ سچائی کا یہ رویہ اختیار نہ کرو لیکن میں باز نہیں آیا اور اپنی شاعری میں بھرپور انداز سے اور بے خوف ہو کر مسلمان کو باطل کی قوت کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے کہتا رہا ۔
بدستِ ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست
دعا بگو ز فقیراں بہ ترکِ شیرازی
معانی: بدست ما: ہمارے ہاتھ میں ۔ دست: ہاتھ ۔ ما: ہمارے ۔ نے: نہ ۔ ایست: ہے ۔ سمرقند و بخارا ۔ بگو: کہ ۔ ز: سے ۔ فقیراں : فقر کی جمع جو دنیاوی سامان نہیں رکھتا ۔ بہ: سے ۔ بہ ترک شیرازی: شیراز کے ترک سے ۔ شیراز ایران کا ایک شہر ، ترک سے کنایہ ہے معشوق کی طرف ۔
مطلب: ہمارے ہاتھ میں نہ سمر قند ہے اور نہ بخارا ہے ۔ ہم فقیروں کی طرف سے تو شیرازی ترکوں کے لیے دعا ہی کیجیے ۔ خواجہ حافظ شیرازی نے جو فارسی کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ اگر شیراز کا ترک میرے دل کو قبضہ میں کر لے تو میں اس کے سیاہ تل کے بدلے میں اسے سمر قند اور بخارا کے شہر بخش دوں گا یا اس کے صدقے میں خیرات کر دوں گا ۔ علامہ نے اس شعر کے مضمون سے یہ مضمون نکالا ہے کہ اگرچہ میرے ہاتھ میں سمر قند اور بخارا جیسے شہر نہیں ہیں کہ میں اپنے معشوق کو دے دوں یا اس پر قربان کر دوں ۔ میں تو ایک فقیر آدمی ہوں جس کے پاس بوریا اور گدڑی بھی نہیں ہے ۔ میں تو اس کے حق میں صرف دعا کر سکتا ہوں ۔ اگر معشوق سے مراد مسلمان قوم لی جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ پھر سے مسلمان قوم کو سرفرازی عطا کرے اور وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پہلے کی طرح پھر سے دنیا پر حکمران ہو جائے ۔
——————–
Translitation
Che Kafarana Qimar-E-Hiyat Mee Bazi
Kh Ba Zamana Ba-Sazi Bakhud Namee Sazi
How heretically do you play the game of life?
you adjust yourself to times, rather than to thine self.
Digar Bamadrasa Haye Haram Namee Beenam
Dil-E-Junaid-O-Nigah-E-Ghazali-O-Razi
I no longer see in the schools
heart of Junaid and insight of Ghazali and Razi.
Bahukam-E-Mufti-E-Azam Ke Fitrat-E-Az Leest
Badeen-E-Suawa Haraam Ast Kar-E-Shahbazi
Nature—the great lawgiver—decrees:
the ways of falcon are forbidden in the religion of sparrows.
Haman Faqeeh-E-Azal Guft Jurrah Shaheen Ra
Basman Garwi Baz Mein Na Pardazi
The same heavenly law-giver decreed for the male falcon:
fly about the skies, don’t deal with the earth.
Manam Ke Tauba Na Kardam Zfaash Goi Haa
Zbeem-E-Ayn Ke Basultan Kunand Ghammazi
I have not left speaking the naked truth,
though the people may speak ill of me before the kings.
Badast-E-Ma Na Samarqand Wa Ne Bukhara Aeest
Dua Bagoz Faqeeran Ba Turk-E-Sheerazi
We have neither Samarkand nor Bukhara to offer,
the dervish can only pray for the Shirazi Turk