سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

جمعيت اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

معانی: قوموں کی انجمن: جس کا انگریزی نام یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن یا مخفف کے طور پر یو این او ہے ۔ اور یہ اس جمیعت اقوام کی بابت ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد جنیوا میں اقوام ہوئی تھی ۔ دم توڑنا: مرنے کے قریب ۔ خبر بد: بری خبر ۔
مطلب: جمیعت اقوام جو دنیا بھر کے ملکوں کی بہتری کے لیے اہل مغرب نے بنائی تھی جب اپنی بے انصافیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ٹوٹنے کے قریب تھی تو اس پر علامہ نے کہا ہے کہ کئی روز سے یہ مرنے کے قریب ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بری خبر کہ یہ مر گئی ہے میرے منہ سے نہ نکل جائے ۔

تقدیر تو مُبرم نظر آتی ہے ولیکن
پیرانِ کلیسا کی دُعا یہ ہے کہ ٹل جائے

معانی: مبرم تقدیر: نہ ٹلنے والی تقدیر ۔ پیران کلیسا: گرجے کے پادری، عیسائیوں کے پیشوا ۔
مطلب: یہ بات کہ جمیعت اقوام مرنے والی ہے ایک اٹل تقدیر کی طرح ہے ۔ یعنی ایسی تقدیر کی طرح ہے جو ٹل نہیں سکتی اور جمیعت اقوام ضرور مر کر رہے گی ۔ اگرچہ عیسائی قوموں کے پادری دعا کر رہے ہیں کہ یہ تقدیر کسی طرح ٹل جائے ۔ عیسائی پادری اس لیے یہ دعا کر رہے ہیں کہ یہ جمیعت عیسائیوں کے فائدے کے لیے اور اہل مغرب کی مفاد میں تھی ۔

ممکن ہے کہ یہ داشتہَ پیرکِ افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

معانی: داشتہ : وہ عورت جو گھر میں بغیر نکاح کے رکھی ہوئی ہو،یہاں تحقیر کے طور پر کہا گیا ہے ۔ پیرک: پیر کے معنی بوڑھا، پیر میں تحقیر ہے، یعنی ذلیل و خوار بوڑھا ۔ افرنگ: اہل مغرب ۔ ابلیس: شیطان ۔ تعویذ: نقش جو بلاؤں کے توڑ کے لیے لکھا جاتا ہے، منتر ۔
مطلب: اس جمیعت اقوام کے ختم ہو جانے میں تو کوئی شک نہیں ۔ یہ ختم ہو کر رہے گی، چاہے عیسائیوں کے پیشوا اس کی زندگی کی دعائیں ہی کیوں نہ کرتے رہیں ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ شیطانی انجمن جسے شیطان نے اہل مغرب کے بے نکاح عورت کی مانند کہا ہے شیطان ہی کے دیے گئے کسی نقش سے یا منتر سے کچھ دیر اور نکال لے لیکن اس کا ختم ہونا اس کے بے انصافیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے اس کا مقدر بن چکا ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button