بہت رنگ بدلے سپہرِ بریں نے
خدایا یہ دنیا جہاں تھی، وہیں ہے
معانی: سپہر بریں : بلند آسمان ۔ رنگ بدلے: کئی زمانے آئے، کئی صورتیں بدلیں ۔
مطلب: بظاہر اس نظم کے عنوان سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں عورت کے پردے کی بات ہو گی مگر اس کے برعکس علامہ نے اس پردے کی بات کی ہے جو آدمی کی خودی پر پڑا ہوا ہے ۔ پہلے شعر میں شاعر یہ کہتا ہے کہ بلند آسمان نے آج تک کئی زمانے اور ان کے کئی رنگ دیکھے ہیں ۔ لیکن اے خدا یہ دنیا جس طرح اول روز تھی ویسے ہی آج بھی قائم ہے ۔
تفاوت نہ دیکھا زَن و شو میں ، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے
معانی: تفاوت: فرق ۔ زن و شو: بیوی اور شوہر ۔ خلوت نشین: تنہائی میں بیٹھنے والے یا پردہ کرنے والے ۔
مطلب: عام اصول یہ ہے کہ عورت پردے میں ہوتی ہے اور مرد بے پردہ ہوتا ہے ۔ یہاں شاعر نے اس ظاہری پردے سے ہٹ کر ایک اور پردے کی بات کی ہے اور وہ پردہ ہے جو آدمی کی خودی پر پڑا ہوا ہے ۔ اس لحاظ سے شاعر کہتا ہے کہ آج عورت بھی پردے میں ہے اور مرد بھی پردے میں ہے ۔ دونوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا ۔ دونوں ہی اپنی خودی سے نا آشنا ہیں ۔ اگر وہ اپنی اپنی معرفت رکھتے تو اپنے اپنے قدرتی اور فطرتی دائرے میں زندگی گزارتے ۔
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
معانی: آشکارہ: ظاہر ۔ خودی: خود شناسی، انسانیت، اپنی پہچان ۔ اولادِ آدم: حضرت آدم کی اولاد ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ آج آدمی کی پوری اولاد یعنی سارے لوگ پردے میں ہیں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی کی خودی بھی ظاہر نہیں ہے ۔ خودشناسی اور خود معرفتی سے سارے لوگ ہی ناواقف ہیں ۔