با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

اصل شہود و شاہد و مشہود ايک ہے

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا

معانی: اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے: یعنی کائنات میں جو کچھ نظر آ رہا ہے ، دیکھنے والا، اور دیکھا گیا سب ایک ہے ۔ غالب: اسد اللہ خان غالب ۔ قول: بات ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ غالب نے اپنے مصرعہ میں کہا ہے کہ خدا کی ذات، اس کی ذات دیکھنے والوں اور اس کی ذات کی گواہی دینے والوں میں ، یعنی ان تینوں میں بظاہر فرق نہیں ۔ وحدت الوجود کے عقیدے کے مطابق انسان، کائنات اور خدا اور حقیقت ایک ہی وجود کی ظاہری شکلیں ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر غالب کا یہ قول حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ان مسلمانوں کو جو بتوں سے تو عشق کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں برہمن سے دشمنی کا مظاہرہ کیوں ہوا ۔

کیوں اے جنابِ شیخ! سُنا آپ نے بھی کچھ
کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دیر کیا

معانی: جنابِ شیخ: ملا صاحب، مولوی صاحب ۔ کعبہ والے: مراد مسلمان ۔ اہلِ دیر: مندر والے،ہندو ۔
مطلب: ان اشعار میں غالب کے قول کے حوالے اقبال کہتے ہیں کہ انسان جب ایک عمل کرتا ہے تو اس سے متعلق دوسرے عمل کو بھی اپنانا پڑتا ہے ۔

ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے
الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا

مطلب: اس صورت میں ایک جانب تو ہندو دیویوں سے محبت کا اظہار اور دوسری جانب برہمن سے نفرت یہ امر کچھ مناسب معلوم نہیں دیتا ۔

———————–

Transliteration

“Asal-e-Shuhood-o-Shahid-o-Mashood Aik Hai”
Ghalib Ka Qoul Sach Hai To Phir Zikr-e-Ghair Kya

Kyun Ae Janab-e-Sheikh! Suna App Ne Bhi Kuch
Kehte The Kaabe Se Kal Ahle-e-Dair Kya

Hum Puchte Hain Muslim-e-Ashiq Mazaj Se
Ulfat Buton Se Hai To Barhman Se Bair Kya!

——————-

“The search, the witness and the thing witnessed are the same”
If this saying of Ghalib is true there is no strangeness

O Shaikh! Have you heard something?
What the temple’s people’s say to the Ka`bah’s people!

“We ask the Muslim with the disposition of a lover
If you love the idols why is enmity with the Brahman?”

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button