عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
معانی: بے مایہ: بے قیمت ۔ امامت: امام ہونا، رہنمائی کرنا ۔ سزاوار: لائق، قابل ۔ راہبر: راہنما ۔ ظن و تخمین: وہم و گمان ۔ ظن و تخمین: وہم و گمان ۔ زبوں : ذلیل، کمینہ، منتشر ۔ کار حیات: زندگی کا کاروبار ۔
مطلب: عقل کی بے قیمتی اور بے وقتی کا اظہار کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ قوم کی امامت کے لیے عقل نا اہل ہے ۔ اس میں سالاری کی قابلیت نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر راہنما وہم و گمان ہو تو پھر زندگی کا کام یا کاروبار گھٹیا ہو جاتا ہے یا انتشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔
فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات
معانی: بے نور: اندھا ۔ جذبِ عمل بے بنیاد: جس عمل میں سچائی اور خلوص نہ ہو ۔ شبِ تارِ حیات: زندگی کی اندھیری رات ۔
مطلب: جب تیرا فکر اور تری سوچ بے نور ہے یعنی صحیح رہنمائی کی روشنی سے خالی ہے اور تیرے عمل کا جذبہ بے بنیاد ہے تو یہ بات بڑی مشکل ہے کہ تیری تاریک رات روشن ہو ۔
خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر
گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات
معانی: خوب و ناخوب: اچھا برا ۔ وا: کھلنا ۔ شارحِ اسرارِ حیات: زندگی کے بھید کھولنے والی ۔
مطلب: انسانی زندگی کا عمل کون سا اچھا ہے اور کون سا برا ہے یہ گرہ کس طرح کھلے اور یہ مشکل کس طرح حل ہو ۔ جب تک کہ خود زندگی زندگی کے بھیدوں کی تشریح کرنے والی نہ ہو مراد یہ ہے کہ ہدایت اور راہنمائی کی جو طلب زندگی کی جبلت میں داخل ہے وہ فکر سے نہیں وحی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ زندگی کسی انسان کے بھیس میں آ کر اور خدا سے وحی حاصل کرنے کے بعد ہی اپنے اچھے اور برے عمل میں تمیز کر سکتی ہے جیسا کہ انبیائے کرام کی زندگیوں کا شیوہ ہے ۔