Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Ajm Hanooz Ndaaned Ramooz Din, Wrna
اردو نظمیںعلامہ اقبال شاعری

حسين احمد

(Armaghan-e-Hijaz-42)

Hussain Ahmad

(حسین احمد)

 

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجمی است

تعارف: ہندوستان مختلف زبانیں اور مذاہب رکھنے والے لوگوں کا ملک تھا ۔ اس میں دو بڑی قو میں ہندو اور مسلمان آباد تھیں ۔ جب انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کا نعرہ لگایا تو ابتدا میں مسلمانوں نے بھی ہندووَں کا ساتھ دیا ۔ لیکن بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے جس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ ہندو اپنی بھاری اکثریت کی بنا پر ہمیشہ کے لیے حکمران رہیں گے اور مسلمان قوم انگریز کی بجائے ہندو کی غلامی میں آ جائے گی ۔ چنانچہ مسلمانوں کے نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے یہ مطالبہ کر دیا کہ ہندو اور مسلمان چونکہ دو الگ الگ قو میں ہیں اس لیے ان علاقوں اور صوبوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں پاکستان کے نام سے ایک الگ آزا د مملکت قائم کی جائے ۔ جس میں مسلمان اپنی مرضی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔ مسلمانوں کی ان جماعتوں نے جو اس وقت انڈین نیشنل کانفریس کا ساتھ دے رہی تھیں مسلم لیگ کے اس مطالبہ کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ اور کہا کہ یہ غلط ہے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قو میں آباد ہیں ۔ یہاں صرف ایک ہی متحدہ قوم بستی ہے جس کا نام ہندوستانی قوم ہے ۔ ان جماعتوں نے جن میں جمیعت العلمائے ہند پیش پیش تھی مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبہ کہ سخت مخالفت کی اور متحدہ قومیت کا نعرہ لگا کر ہندوستان کو متحد رکھنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کا بھرپور ساتھ دیا ۔ اسی جماعت کے علامہ میں سے ایک کا نام مولانا حسین احمد مدنی تھا جو دیوبند مدرسے میں شیخ الحدیث تھے ۔ انھوں نے جب ایسی تقریریں شروع کیں جن میں مذہب کے بجائے وطن کو قوم کی بنیادقرار دے دیا گیا تھا ۔ اور متحدہ قومیت کا پرچار کر کے پورے ہندوستان کی حکومت ہندو کانگریس کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو علامہ اقبال کو اس پر بڑا صدمہ پہنچا اس وقت ان کے جو تاثرات تھے ان کو انھوں نے فارسی کے ان تین شعروں میں قلم بند کیا ہے ۔
مطلب: معلوم ہوتا ہے کہ ملک عرب سے باہرکا علاقہ ابھی تک دین اسلام کی حقیقی رمز کو نہیں پا سکا ۔ اگر پا چکا ہوتا تو دیوبند کے اسلامی مدرسے کے شیخ الحدیث حسین احمد مدنی یہ تعجب والی بات نہ کرتے کہ ملت کا تعلق وطن سے ہے مذہب سے نہیں ۔ یہ ان کے منہ سے کیا حیران کن بات نکلی ہے ۔

سرود، سربسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمد عربی است

مطلب: مولانا حسین احمد مدنی نے مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر جہاں سے حق کی آواز سربلند ہونی چاہیے تھی یہ باطلی تقریر بڑے دلکش انداز میں جھوم جھوم کر کی کہ مسلمان قوم کی قومیت کی بنیاد وطن ہے نہ کہ اس کا دین یا توحید الہی حالانکہ نہیں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ جہاں جہاں بھی کلمہ گو آباد ہیں وہ سب رنگ، نسل وطن اور علاقہ کے اختلاف کے ایک وحدت یا ایک قوم ہیں لیکن انھوں نے وطن کو قومیت کا نظریہ قرار دے کر یہ تسلیم کیا اور دوسروں کو تسلیم کرنے کے لیے کہا کہ ہر ملک کے مسلمان اپنے اپنے وطن کے اعتبار سے الگ الگ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ہندوستان کے مسلمان بھی ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں اس لیے انہیں ہندو کانگریس کا یہ نظریہ تسلیم کر لینا چاہے کیونکہ یہاں کے مسلمان ہندووَں سے الگ نہیں بلکہ ہندووَں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ قومیت کا جزو ہیں ۔ اس لیے الگ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ دینا چاہیے اور ہندووَں کے ساتھ مل کر حکومت اور ملک کا کاروبار چلانا چاہیے ۔ اگر وہ اتنا سوچ لیتے کہ ہندوستان سے انگریزوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جو جمہوری طرز کی حکومت قائم ہو گی اس میں ہندو 85 فیصد ہوں گے اور مسلمان صرف 15 فیصد ۔ جس کے نتیجے میں ہندو اکثریت ہمیشہ کے لیے جملہ مسلمانوں پر چاہے وہ اقلیتی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے اکثریت کے علاقہ میں رہتے ہوں مسلط رہے گی ۔

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است

مطلب: اس شعر میں علامہ مولانا حسین احمد مدنی کو اور جملہ مسلمانان عالم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفی ﷺ تک پہنچاوَ ۔ مراد ہے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ خفی ہو یا عقلی ہو چاہے وہ ظاہر ہو یا باطن ہو سب میں قرآن و سنت کے ذریعے دیئے گیے نبی کریم ﷺ کے نظام کو پیش نظر رکھو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے اور اس سے ہٹ کر فکر و عمل کی کوئی دنیا بساوَ گے تو چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اور ظاہرً کتنی ہی دلکش کیوں نظر نہ آتی ہو ابولہب کی دنیا ہو گی ۔

Translitation

Ajam Hanooz Nadand Rumooz-E-Deen, Warna
Za Deoband Husain Ahmad! Aen Che Bu-ul-Ajabi Ast

The Ajamites do not yet know, The fine points of our faith;
Otherwise Husain Ahmad of Deoband! What is this foolhardiness?

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عجمی لوگ ابھی تک دین اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوئے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ دیوبند کے حسین احمد مسلمانوں کو ایسی تلقین کرتے جو سراسر اسلام کی روح کے خلاف ہے.

Saroad Bar Sar-E-Minbar Ke Millat Az Watan Ast
Che Bekhabar Za-Maqam-E-Muhammad (S.A.W.) Arabi Ast

A sermon-song from the pulpit that a nation by a homeland be!
From the real position of the Arabian Prophet (PBUH), How sadly unaware is he!

 
یعنی جو شخص مسلمان ہو کر یہ کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بنیاد وطن ہے یا مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا سکتے ہیں یا کافر اور مسلم دونوں مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں وہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے بلا شبہ بےخبر ہے.

BaMustafa (S.A.W.) Barsaan Khowesh Ra Ke Deen Hama Ost
Agar Bah O Ner Sayyadi, Tamam Bu-Lahabi Ast

Your self merge with Mustafa (PBUH) for all faith embodies in Him!
If you do not reach up to Him It is all Bu Lahab’s idolatry!

اے مسلمان! تو وطنیت کا جدید نظریہ اختیار مت کر جس کی رو سے قومیت کی بنیاد وطن ہے، بلکہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم کو حزر جاں بنا اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں ہے بلکہ کلمہ توحید ہے یعنی ساری دنیا کے مسلمان ملت واحدہ  ہیں اور اس لئے وہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت نہیں بنا سکتے.
اے مسلمان! اگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ نہ کر سکا یا ان کی روح سے آگاہ نہ ہو سکا تو پھر تیرا علم و فضل سب بیکار ہے بلکہ وہ تیری گمراہی کا باعث ہو جائے گا.

***

نظم کا پس منظر:
مولانا حسین احمد مدنی نے ٩ جنوری ١٩٣٨ کو دہلی میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں اس لئے مسلمانوں کو لازم ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد دین اسلام نہیں ہے بلکہ وطن ہے. جب مولانا کی یہ تقریر حضرت علامہ اقبال کی نظر سے گزری تو انہیں سخت ملال ہوا کہ مولانا نے عالم دین ہو کر یہ خلاف اسلام تعلیم کس طرح مسلمانوں کے سامنے پیش کی اور کس طرح انہیں اس کے قبول کرنے کا مشوره دیا؟ کیونکہ قرآن، حدیث اور فقہ تینوں کی رو سے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے نہ کہ وطن.
نظم کا لہجہ قدرے درشت ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا کے اس ارشاد سے اقبال کو بہت شدید روحانی کوفت اور ذہنی اذیت پہنچی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button