آئے جو قِراں میں دو ستارے
کہنے لگا ایک دوسرے سے
معانی: قِراں : دو ستاروں کا ایک برج میں جمع ہونا ۔
مطلب: اقبال نے معمول کے مطابق اپنی بیشتر نظموں میں زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل کا ذکر کسی نہ کسی شے کے حوالے سے کیا ہے یہ نظم بھی اسی نوعیت کی حامل ہے جس میں دو ستاروں کے حوالے سے یہ امر واضح کیا گیا ہے کہ جدائی اور فنا بالاخر ہر شے کا مقدر ہے ۔ اس میں اقبال کہتے ہیں کہ دو ستارے ایک برج میں یکجا ہوئے تو ایک نے دوسرے سے کہا ۔
یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب
انجامِ خرام ہو تو کیا خوب
تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو
ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو
معانی: فلک: آسمان ۔
مطلب: اگر آسمان ہم پر قدرے مہربان ہو جائے اور ہماری روشنی یکجا ہو جائے تو ہماری قوت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ہماری افادیت بھی زیادہ ممکن ہو سکتی ہے ۔
لیکن یہ وصال کی تمنا
پیغامِ فراق تھی سراپا
معانی: سراپا: پور ے طور پر ۔
مطلب: لیکن ہوا یوں کہ دونوں ستاروں کے مابین مستقل وصال کی خواہش لمحے بھر میں فراق اور جدائی کا پیغام بن کر رہ گئی ۔
گردش تاروں کا ہے مقدر
ہر ایک کی راہ ہے مقرر
مطلب: اس لیے کہ یہ امر تو ستاروں کا مقدر بن چکا ہے کہ ہر لمحے گردش کرتے رہیں اور مسافرت ان کا اوڑھنا بچھونا ہو ۔
ہے خواب ثباتِ آشنائی
آئین جہاں کا ہے جدائی
معانی: خواب: مراد جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ثباتِ آشنائی: دوستی کا مستقل ہونا ۔
مطلب: نیز یہ کہ اس گردش اور سفر میں ہر ستارے کا راستہ متعین ہے جس سے وہ کسی مرحلے پر بھی سرموانحراف نہیں کر سکتا ۔ کہ جدائی اور فنا ہر شے کا مقدر ہے ۔