اصل شہود و شاہد و مشہود ايک ہے
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا
معانی: اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے: یعنی کائنات میں جو کچھ نظر آ رہا ہے ، دیکھنے والا، اور دیکھا گیا سب ایک ہے ۔ غالب: اسد اللہ خان غالب ۔ قول: بات ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ غالب نے اپنے مصرعہ میں کہا ہے کہ خدا کی ذات، اس کی ذات دیکھنے والوں اور اس کی ذات کی گواہی دینے والوں میں ، یعنی ان تینوں میں بظاہر فرق نہیں ۔ وحدت الوجود کے عقیدے کے مطابق انسان، کائنات اور خدا اور حقیقت ایک ہی وجود کی ظاہری شکلیں ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر غالب کا یہ قول حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ان مسلمانوں کو جو بتوں سے تو عشق کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں برہمن سے دشمنی کا مظاہرہ کیوں ہوا ۔
کیوں اے جنابِ شیخ! سُنا آپ نے بھی کچھ
کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دیر کیا
معانی: جنابِ شیخ: ملا صاحب، مولوی صاحب ۔ کعبہ والے: مراد مسلمان ۔ اہلِ دیر: مندر والے،ہندو ۔
مطلب: ان اشعار میں غالب کے قول کے حوالے اقبال کہتے ہیں کہ انسان جب ایک عمل کرتا ہے تو اس سے متعلق دوسرے عمل کو بھی اپنانا پڑتا ہے ۔
ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے
الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا
مطلب: اس صورت میں ایک جانب تو ہندو دیویوں سے محبت کا اظہار اور دوسری جانب برہمن سے نفرت یہ امر کچھ مناسب معلوم نہیں دیتا ۔
———————–
Transliteration
“Asal-e-Shuhood-o-Shahid-o-Mashood Aik Hai”
Ghalib Ka Qoul Sach Hai To Phir Zikr-e-Ghair Kya
Kyun Ae Janab-e-Sheikh! Suna App Ne Bhi Kuch
Kehte The Kaabe Se Kal Ahle-e-Dair Kya
Hum Puchte Hain Muslim-e-Ashiq Mazaj Se
Ulfat Buton Se Hai To Barhman Se Bair Kya!
——————-
“The search, the witness and the thing witnessed are the same”
If this saying of Ghalib is true there is no strangeness
O Shaikh! Have you heard something?
What the temple’s people’s say to the Ka`bah’s people!
“We ask the Muslim with the disposition of a lover
If you love the idols why is enmity with the Brahman?”