بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

غلام قادررہيلہ

رہيلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کينہ پرور تھا
نکاليں شاہ تيموری کی آنکھيں نوک خنجر سے

ديا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
يہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے

بھلا تعميل اس فرمان غيرت کش کی ممکن تھی
شہنشاہی حرم کی نازنينان سمن بر سے

بنايا آہ! سامان طرب بيدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے

لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
رواں دريائے خوں ، شہزاديوں کے ديدۂ تر سے

يونہی کچھ دير تک محو نظر آنکھيں رہيں اس کی
کيا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے

کمر سے ، اٹھ کے تيغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر ليٹا
تقاضا کر رہی تھی نيند گويا چشم احمر سے

بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگيز منظر سے

پھر اٹھا اور تيموری حرم سے يوں لگا کہنے
شکايت چاہيے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور سے شان صف آرايان لشکر سے

يہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تيمور کی بيٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے ميرے خنجر سے

مگر يہ راز آخر کھل گيا سارے زمانے پر
حميت نام ہے جس کا، گئی تيمور کے گھر سے

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button