بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

وطنيت

(يعنی وطن بحيثيت ايک سياسی تصور کے)

اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمير کيا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

يہ بت کہ تراشيدۂ تہذيب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دين نبوی ہے
بازو ترا توحيد کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک ميں اس بت کو ملا دے

ہو قيد مقامی تو نتيجہ ہے تباہی
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button