پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

 سخت کوشم خنجر در جہاں

 سخت کوشم خنجر در جہاں

آب خود می گیرم  از سنگ گراں

 ترجمہ

 میں جہاں میں سخت کوشش کرنے والا ہوں میں خنجر کی طرح اپنی چمک بھاری اور قیمتی پتھروں سے حاصل کرتا ہوں

 تشریح

یہ عبارت شاعر کی محنت، عزم، اور جدوجہد کے فلسفے کو بیان کرتی ہے۔ شاعر نے اپنی زندگی کے راستے کو خنجر کی چمک اور تیزی سے تشبیہ دے کر اپنی محنت اور مشکلات کو اجاگر کیا ہے۔ تشریح کے مطابق:

سخت کوشش کرنے والا:

شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں سخت اور مسلسل محنت کرنے والا ہے۔

یہ محنت اس کی زندگی کے فلسفے کا بنیادی اصول ہے، جو اسے کامیابی اور عظمت کی طرف لے جاتی ہے۔

خنجر کی چمک:

شاعر اپنی شخصیت اور محنت کو خنجر سے تشبیہ دیتا ہے، جو اپنی تیزی اور چمک بھاری پتھروں سے حاصل کرتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے خنجر کو تیز اور چمکدار بنانے کے لیے محنت اور رگڑ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح شاعر اپنی زندگی میں مشکلات اور محنت کے ذریعے اپنی عظمت حاصل کرتا ہے۔

بھاری اور قیمتی پتھر:

"بھاری اور قیمتی پتھر” مشکلات، چیلنجز، اور زندگی کی آزمائشوں کی علامت ہیں۔

شاعر ان چیلنجز کو قبول کرتا ہے اور انہیں اپنی کامیابی اور ترقی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

دشوار گزار راستے اور کٹھن منزل:

شاعر اپنے راستے کو مشکل اور اپنی منزل کو کٹھن تسلیم کرتا ہے، لیکن وہ ان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان کا سامنا کرتا ہے۔

یہ اس کے مضبوط ارادے اور مشکل پسند طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔

مشکل پسند طبیعت:

شاعر کی طبیعت مشکلات کو گلے لگانے والی ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ انہی مشکلات کے ذریعے کامیابی اور عظمت حاصل کی جا سکتی ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں محنت اور مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگ مشکلات کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہیں، وہی اپنی چمک اور عظمت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر سکتے ہیں۔

خلاصہ:

یہ عبارت محنت، جدوجہد، اور مشکلات کو قبول کرنے کے فلسفے پر مبنی ہے۔ شاعر اپنی زندگی کو خنجر سے تشبیہ دیتا ہے، جو اپنی چمک اور تیزی بھاری پتھروں سے حاصل کرتا ہے، اور یہ پیغام دیتا ہے کہ محنت، صبر، اور عزم ہی کامیابی کی کنجی ہیں۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button