رموز بے خودی

از ستایش گستری بالا ترم

از ستایش گستری بالا ترم

 پیش ہر دیواں فرو ناید سرم

ترجمہ

 میں تعریف کرنے سے بالاتر ہوں میرا سر ہر دیوان کے سامنے نہیں جھکتا

 تشریح

یہ عبارت ایک خوددار اور باوقار شخصیت کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے، جو خوشامد اور چاپلوسی سے دور رہنے پر زور دیتا ہے۔ شاعر نے اپنی خودداری اور غیرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ تشریح کے مطابق:

تعریف سے بالاتر ہونا:

شاعر کہتا ہے کہ وہ جھوٹی تعریف اور خوشامدی رویوں سے بالاتر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کے آگے جھوٹی یا غیر ضروری تعریف کرکے اپنا وقار کم نہیں کرتا۔

ہر دیوان کے سامنے سر نہ جھکانا:

شاعر وضاحت کرتا ہے کہ وہ ہر کسی کے دربار یا حکمرانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔

یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ صرف اللہ کے سامنے جھکتا ہے اور انسانوں کے سامنے غلامی کو قبول نہیں کرتا۔

مغربی تہذیب اور جھوٹی تعریف سے الگ رہنا:

شاعر مغربی اقوام اور ان کی جھوٹی شان و شوکت کی تعریف کرنے سے خود کو الگ اور بالاتر سمجھتا ہے۔

وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مغربی حکمرانوں یا ان کے اقدار کو خوش کرنے کے لیے جھکنا ایک خوددار شخص کے شایان شان نہیں۔

غیرت اور خودداری کا اظہار:

شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی وقار اور عزت اسی میں ہے کہ انسان اپنے اصولوں پر قائم رہے اور دنیاوی طاقتوں یا حکمرانوں کے آگے اپنی خودداری قربان نہ کرے۔

یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عزت نفس اور غیرت سب سے قیمتی ہیں۔

کسی چیز کی طلب نہ ہونا:

شاعر مزید کہتا ہے کہ وہ حکمرانوں یا شاہی دربار سے کسی چیز کی طلب نہیں رکھتا، اس لیے وہ ان کے سامنے جھکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔

یہ رویہ اس کی خود مختاری اور آزادی کی علامت ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں سکھاتی ہے کہ خوشامد اور غلامی سے بچ کر اپنی عزت اور خودداری کو برقرار رکھنا ایک باوقار انسان کی پہچان ہے۔ انسان کو اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور دنیاوی لالچ یا خوف کے آگے جھکنا نہیں چاہیے۔

خلاصہ:

یہ عبارت خودداری، غیرت، اور آزادی کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر خوشامدی رویے اور حکمرانوں کے سامنے سر جھکانے کو اپنے وقار کے خلاف سمجھتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقی عزت نفس اسی میں ہے کہ انسان اپنے اصولوں اور خودمختاری کو برقرار رکھے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button