رموز بے خودی

  من شہید تیغ ابروے توام

  من شہید تیغ ابروے توام

  خاکم و آسودہ  کوے  توام

 ترجمہ

میں تو تیری ابروؤں کا مقتول ہوں میں خاک ہوں اور میں نے تیری ہی گلی میں سکون پایا ہے

 تشریح 

 یہ عبارت امت مسلمہ کی عظمت، محبت، اور اس کے ساتھ گہرے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ شاعر نے امت مسلمہ کے لیے اپنے جذبات کو گہرائی اور عشق کے انداز میں پیش کیا ہے۔ تشریح کے مطابق:

ابروؤں کا مقتول ہونا:

شاعر کہتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی "ابروؤں” یعنی اس کی خوبصورتی، عظمت، اور پاکیزگی پر قربان ہو چکا ہے۔

"ابروؤں کا مقتول” ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ امت مسلمہ کے حسن اور عظمت کا گرویدہ ہے اور اس کے لیے اپنی جان نچھاور کر چکا ہے۔

خاک ہونے کی علامت:

شاعر اپنے آپ کو "خاک” کہہ کر اپنی عاجزی اور کم مائیگی کو ظاہر کرتا ہے۔

وہ اپنی حیثیت کو مٹی کے برابر مانتا ہے، لیکن اس عاجزی میں بھی امت مسلمہ کے ساتھ سکون پاتا ہے۔

گلی میں سکون پانا:

شاعر کے لیے امت مسلمہ کی گلی یعنی اس کی سرزمین، تہذیب، اور دین اسلام سکون کا واحد ذریعہ ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل کو تسکین اور راحت امت مسلمہ کے ساتھ جڑنے میں ملتی ہے۔

امت مسلمہ کی عظمت کی تعریف:

شاعر نے امت مسلمہ کی خوبصورتی کو نہ صرف ظاہری بلکہ روحانی انداز میں بیان کیا ہے۔

یہ خوبصورتی امت کے کردار، دین، اور اس کی پاکیزہ تہذیب میں جھلکتی ہے۔

محبت اور وفاداری کا اظہار:

شاعر نے اپنے دل کی گہرائیوں سے امت مسلمہ کے لیے محبت اور وفاداری کا اظہار کیا ہے۔

یہ وفاداری اور عشق امت کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مثال قائم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنی قوم اور دین سے محبت اور عقیدت کا اظہار کس طرح عاجزی اور خلوص کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ جذبہ امت مسلمہ کے ساتھ جڑنے اور اس کی عظمت کو پہچاننے کی تلقین کرتا ہے۔

خلاصہ:

یہ عبارت امت مسلمہ کی عظمت اور اس کے ساتھ شاعر کی گہری محبت کو بیان کرتی ہے۔ شاعر اپنی عاجزی اور کم مائیگی کے باوجود امت کی گلی کو اپنا سکون قرار دیتا ہے اور اس کی عظمت پر فخر محسوس کرتا ہے۔ یہ عاجزی، محبت، اور وفاداری کا بہترین نمونہ ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button