رموز بے خودی

 بردر ساقی جبیں فرسود او

 بردر ساقی جبیں فرسود او

 قصہ مغزادگاں پیمود او

ترجمہ

 وہ ساقی اہل مغرب کے در پر جبیں نیاز جھکائے رہے انہوں نے وہاں کے مخلصوں کے قصے بیان کیے

 تشریح

یہ عبارت مغربی تہذیب اور اس کے پیروکاروں کے رویے پر ایک تنقیدی تبصرہ ہے، جہاں شاعر مغرب کے سامنے سر جھکانے اور ان کے عقیدت مند بننے کے رویے کو ناپسندیدگی سے بیان کرتا ہے۔ تشریح کے مطابق:

مغرب کے در پر جھکنا:

شاعر ان لوگوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتا ہے جو مغربی تہذیب کے آگے اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔

یہاں "جبیں نیاز جھکانا” مغرب کی برتری کو قبول کرنے یا ان کے سامنے اپنی حیثیت کو غلامی کے انداز میں ظاہر کرنے کی علامت ہے۔

مغربی مخلصوں کی تعریف:

یہ لوگ مغربی معاشرے کے مخلصوں اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہیں۔

شاعر کے نزدیک یہ رویہ خود اپنی اقدار اور ثقافت کو بھول کر دوسروں کی غلامی کی حد تک جھک جانے کا عکاس ہے۔

خود کو کمتر ظاہر کرنا:

شاعر مغربی تہذیب کے سامنے غلامی کے انداز میں پیش آنے کو خودداری کے خلاف سمجھتا ہے۔

ان لوگوں کا رویہ اپنے آپ کو کمتر ظاہر کرنا اور مغربی اقدار کو برتر سمجھنا ہے، جو شاعر کے لیے قابل مذمت ہے۔

مغربی اثر و رسوخ کی مذمت:

یہ شعر مغربی اثر و رسوخ اور تہذیبی غلامی کی مخالفت کرتا ہے۔

شاعر اس بات کی تلقین کر رہا ہے کہ اپنی ثقافت، خودداری، اور روایات کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کی عقیدت میں مبتلا ہونا درست نہیں۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کسی دوسری تہذیب سے سیکھنا یا ان کی اچھائیوں کو اپنانا غلط نہیں، لیکن اپنے اصولوں، روایات، اور عزت کو چھوڑ کر غلامی کی روش اختیار کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

خلاصہ:

یہ عبارت مغربی تہذیب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے رویے پر ایک تنقید ہے۔ شاعر لوگوں کو اپنی ثقافت اور خودداری کو برقرار رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور مغرب کے قصیدے پڑھنے کے بجائے اپنی اقدار اور تہذیب کو اپنانے پر زور دیتا ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button