شاہيں
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
معانی: خاکداں : زمین ۔ کنارا: علیحدگی ۔ آب و دانہ: خوراک ۔
مطلب: علامہ اقبال کے پورے فکری نظام اور اس کے تحت ہونے والی اردو فارسی شاعری میں شاہین ایک بنیادی اور مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ شاہین پرندوں کی دنیا کا بقول اقبال درویش ہے یعنی وہ صفات جو ایک مرد درویش میں ہونی چاہیں ۔ اسی طرح کی صفات پرندوں میں شاہین کی ہیں ۔ زیر تشریح اشعار میں شاہین خود اپنی جملہ صفات کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے کہ میں زمین پر بکھرے ہوئے دانے دنکے پر گزارہ نہیں کرتا بلکہ اپنا رزق فضاؤں میں تلاش کرتا ہوں ۔
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
معانی: راہبانہ: لوگوں سے ہٹ کر رہنا ۔
مطلب: ابتدائے آفرینش سے میری فطرت میں فقر و درویشی کی صفات ودیعت کر دی گئی ہیں اسی لیے تو صحراؤں کی خلوت میرا پسندیدہ مقام ہے ۔
نہ بادِ بہاری، نہ گل چیں ، نہ بلبل
نہ بیماریِ نغمہَ عاشقانہ
معانی: گل چیں : پھول توڑنے والا ۔
مطلب: اس لیے کہ صحرا میں نہ بہار کا موسم ہوتا ہے تو پھول بھی نہیں ہوتے تو ان کو توڑنے والا کہاں سے آئے گا ۔ نہ یہاں بلبل ہوتی اور نا ہی یہاں عشق و محبت کے نغموں سے پیدا ہونے والی بیماری کا ہی کوئی وجود ہوتا ہے یہی فضا مجھے راس آتی ہے ۔
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
معانی: خیابانیوں : باغ والے ۔ پرہیز: بچنا ۔ دلبرانہ: محبوبوں جیسی ۔
مطلب: باغوں کی فضاؤں میں بسنے والے نرم و نازک لوگوں کا وجود مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لیے کہ ان مردانہ صفات کی بجائے معشوقوں کے سے انداز ہوتے ہیں ۔ جب کہ میری فطرت تو جراَت و مردانگی سے عبارت ہے ۔
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
معانی: بیاباں : جنگل ۔ کاری: کارآمد ۔ جواں مرد: باہمت ۔ ضربتِ غازیانہ: مجاہدانہ حملہ، یعنی جنگ کرنےوالوں کی خصوصیت ۔
مطلب: یوں بھی صحرا میں بسر کرنے والے جوانمردوں کا وار زیادہ بھرپور قوی اور کاری ہوتا ہے کہ صحرا کی ہوائیں اسے زیادہ تقویت بخشتی ہیں ۔
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
معانی: حمام: چکور ۔ زاہدانہ: عبادت گزاری ۔
مطلب: یہ بات غور سے سن لو کہ میں فاختہ اور کبوتر جیسے مسکین پرندوں کے گوشت کا بھوکا نہیں ہوں اس لیے کہ میں تو درویشوں اور زاہدوں کی سی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں ۔
جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
مطلب: البتہ میرا دن پرندوں پر جھپنٹنا پھر پلٹنا اور پلٹنے کے بعد پھر سے جھپٹنا محض ان کے شکار کی خاطر نہیں ہوتا بلکہ یہ تو اپنے لہو کو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے کہ جسم میں لہو گرم نہ ہو اور خون کی اس روانی کا احساس ہی نہ ہو تو ہر جاندار ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے ۔
یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
معانی: پچھم: مغرب ۔ بیکرانہ: بے کنارہ ۔
مطلب: یہ بھی جان لو کہ جو مشرق و مغرب کی فضا ہے اس میں تو صرف چکور جیسے کمزور اور ناتواں پرندے بسر اوقات کرتے ہیں جب کہ میں تو نیلگوں آسمانوں کی ان فضاؤں میں محو پرواز رہتا ہوں جہاں عزم و ہمت اور حوصلہ درکار ہوتے ہیں ۔ کم ہمتی اور بزدلی مجھ ایسے جواں مرد کا شیوہ نہیں ۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
مطلب: میری یہی صفات ہیں جن کی بنا پر مجھے پرندوں کی دنیا کا درویش کہا جاتا ہے چنانچہ درویش کی مانند میں بھی کسی ایک مقام پر اپنا آشیانہ نہیں بناتا ۔ میری دنیا تو لامحدود ہے ۔
————————–
Transliteration
Kiya Mein Ne Uss Khakdan Se Kinara
Jahan Rizq Kanaam Hai Aab-o-Dana
Bayaban Ki Khalwat Khush Ati Hai Mujh Ko
Azal Se Hai Fitrat Meri Rahbana
Na Bad-e-Bahari, Na Gulcheen, Na Bulbul
Na Beemari-e-Naghma-e-Ashiqana
Khayabanion Se Hai Parhaiz Lazim
Adaen Hain In Ki Bohat Dilbarana
Hawa-e-Bayaban Se Hoti Hai Kari
Jawan Mard Ki Zarbat-e-Ghaziyana
Hamam-o-Kabootar Ka Bhooka Nahin Main
Ke Hai Zindagi Baaz Ki Zahidana
Jhapatna, Palatna, Palat Kar Jhapatna
Lahoo Garam Rakhne Ka Hai Ek Bahana
Ye Poorab, Ye Pacham Chakoron Ki Dunya
Mera Neelgun Asman Baikarana
Prindon Ki Dunya Ka Dervaish Hun Mein
Ke Shaheen Banata Nahin Ashiyana
————————–
I have turned away from that place on earth
Where sustenance takes the form of grain and water.
The solitude of the wilderness pleases me—
By nature I was always a hermit—
No spring breeze, no one plucking roses, no nightingale,
And no sickness of the songs of love!
One must shun the garden‐dwellers—
They have such seductive charms!
The wind of the desert is what gives
The stroke of the brave youth fighting in battle its effect.
I am not hungry for pigeon or dove—
For renunciation is the mark of an eagle’s life.
To swoop, withdraw and swoop again
Is only a pretext to keep up the heat of the blood.
East and West ‐these belong to the world of the pheasant,
The blue sky—vast, boundless—is mine!
I am the dervish of the kingdom of birds—
The eagle does not make nests