محبت کا جنوں باقی نہيں ہے
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں ، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
مطلب: اس رباعی میں اقبال مسلمانوں کی صورت حال پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں نہ جذبہ رہا نہ غیرت ! نا ہی کچھ کر گزرنے کا جنون برقرار ہے ۔ آج کے مسلماں کی کیفیت تو یہ ہے کہ ان کی صفوں میں نفاق نے بیج بوئے ہوئے ہیں جس کے سبب پریشاں حالی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان سجدوں میں ذوق اور خلوص ناپید ہوتا ہے اس ساری صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل عشق حقیقی کے جذبے سے خالی ہو چکے ہیں ۔
——————–
Transliteration
Mohabbat Ka Junoon Baqi Nahin Hai
Musalman Mein Khoon Baqi Nahin Hai
They no longer have that passionate love—
Muslims are drained of blood.
Safeen Kaj, Dil Preshan, Sajda Be-Zauq
Ke Jazb-e-Androon Baqi Nahin Hai
The rows are uneven, the hearts adrift, the prostration joyless—
All this because the inner feeling is dead!
————————–