وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے
وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے سوالیہ انداز میں اپنے محبوب حقیقی کو رونق محفل کی طرح پیش کیا ہے ۔ یہاں محبوب سے مراد رب ذوالجلال ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مفروضہ اپنی جگہ درست کہ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ اس کا وجود بجلی کی رو کے مانند ہے جو نظر نہیں آتی لیکن اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتی ہے ۔ وہ یقینا خدا ہے لیکن اب تک اس کے بارے میں یہ علم نہ ہو سکا کہ اس کا مسکن کونسا ہے ۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ دل کی خلوتوں میں رہتا ہے تا ہم آج تک یہ راز آشکار نہیں ہو سکا کہ دل کے جس مقام پر خدا کا مسکن ہے وہ مقام کہاں ہے ۔ ابھی تک یہ معاملہ سوالیہ نشان کے مانند ہے ۔
———————
Transliteration
Woh Mera Ronaq-e-Mehfil Kahan Hai
Meri Bijli, Mera Hasil Kahan Hai
Where is the moving spirit of my life?
The thunder‐bolt, the harvest of my life?
Maqam Iss Ke Hai Dil Ki Khalwaton Mein
Khuda Jane Maqam-e-Dil Kahan Hai!
His place is in the solitude of the heart,
But I know not the place of the heart within.
————————–