بال جبریل (حصہ دوم)

انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے

قطعہ

انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے

انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے
شايد کہ اتر جائے ترے دل ميں مری بات
يا وسعت افلاک ميں تکبير مسلسل
يا خاک کے آغوش ميں تسبيح و مناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
يہ مذہب ملا و جمادات و نباتات

———————

Translation

Andaz-e-Byan Gharche Bohat Shaukh Nahin Hai
Shaid Ke Utar Jaye Tere Dil Mein Meri Baat

Ya Wusaat-e-Aflak Mein Takbeer-e-Musalsal
Ya Khak Ke Aghosh Mein Tasbeeh-o-Munajat

Woh Mazhab-e-Mardan-e-Khud Agah-o-Khuda Mast
Ye Mazhab-e-Mullah-o-Jamadat-o-Nabataat

————————————–

Though I have little of rhetorician’s art,
Maybe these words will sink into your heart:
A quenchless crying on God through the boundless sky—
A dusty rosary, earth‐bound litany—
So worship men self‐knowing, drunk with God;
So worship priest, dead stone, and mindless clod.

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button