Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Kho Na Ja Iss Sehar-o-Sham Mein Ae Sahib-e-Hosh!
بال جبریل (حصہ دوم)

کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحبِ ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

معانی: صاحبِ ہوش: عقل مند ۔ فردا: آنے والا کل ۔ دوش: گزرا ہوا کل ۔
مطلب: دانشوروں سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ عہد کی صبح اور شام میں گم ہو کر نہ رہ جاوَ کہ یہ عمل محض اسی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے جس میں صبح اور شام کا کوئی وجود نہیں ۔

کس کو معلوم ہے ہنگامہَ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مئے خانہ ہیں مدت سے خموش

معانی: ہنگامہَ فردا: مستقبل کا ہنگامہ ۔
مطلب: دوسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ مستقبل کے بارے میں وجود پذیر ہونے والے واقعات کا ادراک کس کو ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے عہد کی مساجد ، درس گاہیں مئے خانے تو شعور سے بیگانے ہیں اور وہاں کبھی لوگوں کی جو تربیت ہوتی تھی وہ سلسلہ بھی قریب قریب ناپید ہو چکا ہے ۔ جب صورت حال یہ ہو تو مستقبل کے معاملات کا اندازہ آخر کون کر سکے گا ۔

میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

معانی: اشکِ سحر گاہی: صبح اٹھ کر رو کر دعائیں کرنا ۔ جس درِ ناب: عمدہ ، خالص موتی ۔ صدف: سیپی ۔
مطلب: صبح کی عبادت و دعا کے دوران میں جو عرفان خداوندی حاصل کرتا ہوں وہ ایک ایسے گوہر نایاب کی مانند ہے جس کا وجود صدف کی آغوش میں بھی ممکن نہیں ۔

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا جاحتِ گلگونہ فروش

معانی: چہرو روشن ہو تو کیا: باطن روشن ہو تو کیا ۔ گلگونہ فروش: چہرے کو ابٹن لگا کر سفید کرنا گویا روشن چہرہ کسی بیرونی مصنوعی رنگ سے نہیں چمک سکتا ۔
مطلب: اقبال اپنے ہم عصر دانشوروں کی مانند عہد کی تہذیب سے ہمیشہ بدظن نظر آتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ تہذیب ایک طرح کی ملمع سازی کے سوا اور کچھ نہیں چنانچہ ان کے نزدیک جب انسانی چہرہ صاف و شفاف ہو تو پھر اس کے لیے غازہ کی ضرورت نہیں ۔

صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

مطلب: اس شعر کے مطابق اگرچہ ہر دانشور ہمیشہ اپنی رائے کو صحیح جانتے ہوئے حرف آخر سمجھ لیتا ہے ۔ تاہم اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے ۔

———————-

Translation

Kho Na Ja Iss Sehar-o-Sham Mein Ae Sahib-e-Hosh!
Ek Jahan Aur Bhi Hai Jis Mein Na Farda Hai Na Dosh

Kis Ko Maaloom Hai Hungama-e-Farda Ka Maqam
Masjid-o-Maktab-o-Maikhana Hain Muddat Se Khamosh

Main Ne Paya Hai Usse Ashk-e-Sehargahi Mein
Jis Dur-e-Naab Se Khali Hai Sadaf Ki Aagosh

Nayi Tehzeeb Takaluf Ke Sawa Kuch Bhi Nahin
Chehra Roshan Ho To Kya Hajat-e-Gluguna Farosh!

Sahib-e-Saaz Ko Lazim Hai Ke Ghafil Na Rahe
Gahe Gahe Galat Aahang Bhi Hota Hai Sarosh

————————————–

In the maze of eve and morn, O man awake, do not be lost:
Another world there yet exists that has no future or the past.

None knows that tumult’s worth and price which hidden lies in future’s womb:
The mosque, the school and tavern too since long are silent like a tomb.

In tears shed at early morn is found the gem unique and best,
The gem, whose like is never held, by mother shell within its breast.

The Culture New is nothing else save glamour false and show, indeed:
If the face be fair and bright, rouge vendors aid it does not need.

Much care and caution must he take, who sets the music of a song:
For oft the Voice Unseen inspires such airs as jarring are and wrong.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button