Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Ye Peyam De Gyi Hai Mujhe Bad-e-Subahgahi
بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

يہ پيام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

 

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

معانی: بادِ صبح گاہی: صبح کی خوشگوار ہوا ۔ عارف: آشنا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے خودی کے معاملات پر یوں کہا ہے کہ صبح کی خوشگوار ہوا مجھے یہ پیغام دے گئی ہے کہ جو لوگ خودی کے مقام سے آشنا ہیں وہ رتبے میں بادشاہ سے کم نہیں ہوتے ۔

تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی ، نہ رہی تو رُوسیاہی

معانی: آبرو: عزت ۔ روسیاہی: رسوائی ۔
مطلب: اس شعر میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ زندگی میں خودی کے حوالے سے اور انسانی آبرو بھی اسی پیمانے سے ماپی جاتی ہے ۔ خودی قائم ہے تو یہ جان لے کہ تیرے ہاتھ بادشاہی آ گئی اور اگر قائم نہ رہی تو تیرے لیے بربادی یا رسوائی کے سوا اور کچھ نہ ہو گا ۔

نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی

مطلب: اے فلسفی! تو نے اپنے تمام تر علم و دانش کے باوجود منزل کے نشان سے بھی آگاہ نہیں کیا لیکن اس ضمن میں تجھ سے کسی قسم کا گلہ بے معنی ہے کہ تو خود اپنے آپ میں مگن رہنے والا ہے ۔ تجھے اس سے کیا غرض کہ منزل کون سی ہے اور کیسے اس کی رہنمائی کرنی ہے ۔

مرے حلقہَ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی

معانی: رسم کجکلاہی: ٹیڑھی ٹوپی والے ۔ صاحب شان و شوکت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میرے گردوپیش جمع ہونے والوں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں اور میں ان کی تربیت کر رہا ہوں ۔ یہ درست ہے کہ لوگ ایسے درویش ہیں جو بادشاہوں کے طور طریقوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔

یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

مطلب: اے صوفی! جہاں تک عقائد کے معاملات کا تعلق ہے ان کی نزاکت سے میں پوری طرح آگاہ ہوں اور سوائے اس کے کہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ تو نے جو خانقاہی نظام راءج کیا ہے کم از کم مجھے تو وہ پسند نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جو تیری مرضی ہے تو کر ۔ یعنی راءج پند و نصاءح کے بجائے میں نے تو تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔

تو ہُما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی

معانی: ہُما: ایک خیالی پرندہ، جس کا سایہ کسی پر پڑ جائے تو وہ بادشاہ بن جاتا ہے ۔ جہانِ مرغ و ماہی: پرندوں اور مچھلیوں کی دنیا ۔
مطلب: شاعر مشرق کہتے ہیں کہ تو نے ابھی عملی زندگی میں جدوجہد کا آغاز تو کر دیا لیکن اپنے گردوپیش کے معاملات سے آگاہی کے بغیر اس بلندی پر پہنچنے کی سعی میں مصروف ہو گیا ہے جو دیکھا جائے تو کسی طور پر بھی تیری دسترس میں نہیں لیکن تو ہے کہ اپنے گردوپیش کو نظر انداز کر کے ایک لا یعنی عمل میں مصروف ہے ۔

تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الّا
لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی

معانی: لغتِ غریب: نامعلوم علم ۔
مطلب: اقبال نظم کے اس آخری شعر میں مسلمان سے مخاطب ہیں ان کا کہنا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ تیرا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے ۔ تیرے لیے لا الہ الاہی حقیقی پیغام ہے ۔ لیکن اسے محض زبان سے کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تیرا دل بھی اس کی گواہی دے تو عملی سطح پر اس کی تصدیق نہ کرے تو پھر جان لینا چاہیے کہ یہ کسی ایسی زبان کا لفظ ہے جسے نہ تو سمجھ سکتا ہے نہ کسی کو سمجھا سکتا ہے ۔

———————

Translation

Ye Peyam De Gyi Hai Mujhe Bad-e-Subahgahi
Ke Khudi Ke Arifon Ka Hai Maqam Padshahi

Teri Zindagi Issi Se, Teri Aabru Issi Se
Jo Rahi Khudi To Shahi, Na Rahi To Roosiyahi

Na Diya Nishan-e-Manzil Mujhe Ae Hakeem Tu Ne
Mujhe Kya Gila Ho Tujh Se, Tu Na Reh Nasheen Na Rahi

Mere Halqa-e-Sukhan Mein Abhi Zair-e-Tarbiat Hain
Woh Gada Ke Jante Hain Rah-o-Rasm-e-Kajkalahi

Ye Maamle Hain Nazuk, Jo Teri Raza Ho Tu Kar
Ke Mujhe To Khush Na Aya Ye Tareeq-e-Khanqahi

Tu Huma Ka Hai Shikari, Abhi Ibtada Hai Teri
Nahin Muslihat Se Khali Ye Jahan-e-Murg-o-Mahi

Tu Arab Ho Ya Ajam Ho, Tera ‘LA ILAHA ILLAH’
Lughat-e-Ghareeb, Jab Tak Tera Dil Na De Gawahi

————————-

The morning breeze has whispered to me a secret,
That those who know their self-hood, are equal to kings.

Self-hood is the essence of your life and honor,
You shall rule with it, but without it be in disgrace.

You have not led my way, O man of wisdom!
But why, complain? You know not the way.

Fakirs who know the wont and way of kings
Are as yet being trained in my literary circle.

Your monastic cult is a strait and narrow path,
Which I like not, but your freedom I respect.

This world of inferior prey is meant to sharpen your claws,
You are an eagle‐hunter, but are a novice yet.

Whether you are in the East or West, your faith
Is meaningless, unless your heart affirms it.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button