Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Iqbal Ko Shak Iski Sharaft May Nhi Hy
سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

دام تہذيب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار

معانی: دام تہذیب: تہذیب کا جال ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے طنز کے طور پر کہا ہے کہ مجھے یورپ والوں کی شرافت پر کوئی شک نہیں ۔ وہ اس خصوصیت کی بنا پر دنیا کی ہر مظلوم قوم کے خریدار اور ہمدرد بن جاتے ہیں ۔ لیکن جب ان پر قابو پا لیتے ہیں تو یہی شریف لوگ مفتوحہ علاقوں میں شیطانی تہذیب پھیلا دیتے ہیں ۔

یہ پیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

معانی: پیر کلیسا: عیسائی پادری ۔ کرامت: اعجاز ۔ منور: روشن ۔ افکار: خیالات ۔
مطلب: اسے عیسائی پادریوں کا اعجاز سمجھیں کہ انھوں نے مفتوحہ قوموں کے لوگوں کے خیالات کو بجلی کے چراغوں یعنی تہذیب جدید سے روشن کیا ہے ۔ اور ترقی کے بھیس میں عیسائیت بھی پھیلائی ہے اور لوگوں کے خیالات کو تبدیل کر کے تہذیب مغرب کا گرویدہ بھی بنایا ہے ۔

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہَ دشوار

معانی: عقدہَ دشوار: مشکل گرہ ۔ تدبیر سے: عقل سے ۔
مطلب: فلسطین اور شام کے ملک پہلی جنگ عظیم سے پہلے سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے لیکن مغربی اقوام نے ترکوں کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ کر کے اور ان کو ظالم ثابت کر کے عربوں کو ترکوں سے آزاد ہونے کا مشورہ دیا لیکن جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد خود ان ملکوں پر قابض ہو گئے ۔ اس پس منظر میں علامہ کہتے ہیں کہ میرا دل شام اور فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے اس پر جل رہا ہے ۔ یہ ایک ایسی مشکل گرہ ہے جس عقل کے ناخن سے نہیں کھولی جا سکتی کیونکہ اس میں سراسر دھوکہ اور فریب کا عمل دخل ہے ۔

تُرکانِ جفا پیشہ، کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

معانی: ترکان جفا پیشہ: وہ ترک قوم جسے انگریز عربوں پر ظلم کرنے والا بتاتے ہیں ۔
مطلب: اقبال نے اس آخری شعر میں اہل مغرب کی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک تو عربوں پر ظلم کرنے والے تھے لیکن ہوا کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں عرب ترکوں سے آزاد ہونے کے لیے ان کے خلاف اٹھ تو کھڑے ہوئے لیکن جب ترک شکست کھا گئے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں نے شام اور فلسطین پر اور عربوں کے دوسرے ممالک پر قبضہ کر لیا اور بے چارے عرب ترکوں کی حکمرانی سے نکل کر مغربی اقوام کی حکمرانی میں آ گئے اور انھوں نے اپنی حکمرانی کے بعد ان میں ایسی شیطانی تہذیب پھیلائی کہ نہ وہ سیاسی طور پر آزاد رہ سکے اور نہ تہذیبی طور پر ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button