Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Pukhta Afkaar Khan Dhondnay Jay Koi
تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

عصر حاضر

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

معانی: پختہ افکار: پکے اور صحیح خیالات ۔ خام : کچا ۔
مطلب: زمانہ جدید جو کاملاً مغربی تہذیب و تمدن اور افکار و خیالات میں غرق ہو چکا ہے اسکی بات کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پکے اور صحیح خیالات ڈھونڈنے ہم کہاں جائیں کیونکہ اس زمانے کی ہوا ہی ایسی ہے جس نے ہر پختہ چیز کو خام بنا رکھا ہے ۔

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

معانی: بے ربط نظام: بغیر کسی ترتیب اور تنظیم کے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے انگریزی تہذیب و تمدن کے تحت قائم ہونے والے مدرسوں کی خرابی کا ذکر کیا ہے کہ ان مدرسوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو نصاب پڑھائے جاتے ہیں ان سے طالب علموں کی عقل آزاد ہو جاتی ہے یعنی وہ مادر پدر آزاد عقل کے مالک بن جاتے ہیں ۔ اور پختہ اور اچھی باتوں کو ماننے کے بجائے ان میں مین میخ نکالتے رہتے ہیں ۔ وہ جذبہ اور عشق جن کی وجہ سے کبھی ایک طالب علم کے ذہن میں خیالات و افکار کی تنظیم اور تربیت رہتی تھی اب اس سے وہ بالکل نا آشنا ہو جاتا ہے اور نتیجتاً قوم کے نوجوان انتشار خیالات اور آوارگی کردار کے مالک بن جاتے ہیں ۔

مردہ لا دینیِ افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطیِ افکار سے مشرق میں غلام

معانی: لادینی افکار: خیالات کا بے دین ہونا ۔ بے ربطی افکار: خیالات میں ترتیب و تنظیم نہ ہونا ۔ افرنگ: اہل مغرب ۔
مطلب: اہل مغرب میں ان کے خیالات کی بے دینی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ دین سے الگ ہو گئے ہیں اور ان میں عشق کی روح مر گئی ہے ۔ دوسری طرف اگر ہم اہل مشرق کو دیکھیں تو ان میں خیالات کی بے ترتیبی اور بے نظمی کی وجہ سے عشق تو ختم ہوا ہی تھا عقل بھی اہل مغرب کی غلام بن کر رہ گئی ہے اور وہ وہی کچھ کہتے اور وہی کچھ سوچتے ہیں جو مغرب والے کہتے اور سوچتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button