جان و تن
عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں اُلجھی ہوئی
رُوح کس جوہر سے خاکِ تیرہ کس جوہر سے ہے
معانی: پیچاک: الجھن ۔ روح: جان ۔ جوہر: چیزیں بنانے کا مادہ ۔ خاکِ تیرہ: اندھیری زمین ۔
مطلب: عقل ایک مدت سے اس الجھاوَ میں پھنسی ہوئی ہے کہ انسانی روح کی اصل کیا ہے اور انسانی جسم اس کی اصل کیا ہے اور وہ آج تک اس عقدہ کو حل نہیں کر سکی ۔
میری مشکل مستی و شور و سُرور و درد و داغ
تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے
معانی: مستی و شور: بے ہوشی اور شور ۔ سرور: خوشی ۔ دردو داغ: عشق کا درد اور غم ۔
مطلب: علامہ خود کو صاحب عشق کہتے ہوئے عقل پسند کو یہ بات کہہ رہے ہیں کہ میں جو صاحب عشق ہوں میں تو اس بات پر غور کر رہا ہوں کہ مجھ میں مستی، لطف اور غم اور داغ کی جو صورتیں پیدا ہو رہی ہیں یہ کس وجہ سے ہیں اور تو اے عقل پسند اس بات میں الجھا ہوا ہے کہ پیالہ شراب سے ہے یا شراب پیالے سے ہے ۔ یعنی میں تو سمجھ چکا ہوں کہ لطف و مستی اور درد و داغ کی ساری کیفیات روحانی ہیں ۔ روح کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن تو اے عقل پسند ابھی اس مخمصے میں پھنسا ہوا ہے کہ روح بدن سے ہے کہ بدن روح سے ہے ۔
ارتباطِ حرف و معنی اختلاطِ جان و تن
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے
معانی: اخگر قبا پوش: لنگارہ لباس میں ۔ اپنی خاکستر سے: اپنی راکھ سے ۔
مطلب: اگر اے شخص تو روح اور بدن میں تعلق اور میل جول کی بات سمجھنا چاہتا ہے تو پہلے حرف اور معنی کے میل جول کی بات سمجھ لے ۔ جس طرح حرف نہ ہو تو معنی کہاں سے ہوں گے ۔ اسی طرح اگر روح نہ ہو تو بدن کہاں ہو گا ۔ جس طرح حرف اور معنی میں تعلق ہے اسی طرح روح اور جسم میں تعلق ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ روح کے بغیر بدن کا اور بدن کے بغیر روح کا ہونا ناممکن ہے ۔ اس لیے ہمیں جان و تن دونوں کی پرورش کرنی چاہیے ۔ راہبوں کی طرح تن کو بھلا دینا اور جان پر توجہ رکھنا یا دنیادار کی طرح تن پر توجہ صرف کرنا اور روح کو خاطر میں نہ لانا درست نہیں ہے ۔ درست وہی ہے جو اسلام کو اپناتا ہے وہ بتاتا ہے کہ روح اور جسم دونوں اللہ کے انعامات میں سے ہیں ۔ دونوں کی ان کی جائز تقاضوں کے مطابق پرورش کرنی چاہیے ۔