پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

ہم نوا از جلوہ اغیار گفت 

ہم نوا از جلوہ اغیار گفت 

داستان گیسو و رخسار گفت

 ترجمہ

 میرے ہم نواؤں نے دوسروں کے جلووں کے متعلق گفتگو کی انہوں نے گیسو اور رخسار کی داستان کہی

 تشریح 

یہ عبارت حسن و عشق کے موضوع پر گفتگو کرنے والوں کی عادات اور ان کی سوچ کے دائرے کو بیان کرتی ہے۔ تشریح کے مطابق:

ہم نواؤں کی گفتگو کا موضوع:

شاعر اپنے ہم نواؤں یعنی اپنے ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کی گفتگو کا محور دوسروں کے حسن و جلووں کی تعریف کرنا ہے۔

وہ زلفوں (گیسو) اور گالوں (رخسار) جیسے ظاہری حسن کو موضوع بنا کر بات کرتے ہیں۔

ظاہری حسن کی تعریف:

ہم نواؤں کی باتوں میں حسن کی تعریف ظاہری حد تک محدود ہے، جہاں گیسو اور رخسار جیسے جسمانی پہلو بیان کیے جاتے ہیں۔

یہ بات شاعر کو اس بات کی طرف مائل کرتی ہے کہ ان کے ساتھی حسن کی گہرائی یا حقیقی معنی پر غور نہیں کرتے، بلکہ ظاہری جلووں کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔

حسن کی حقیقت کا تاثر:

شاعر کے انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو سطحی اور عارضی حسن کی تعریف سمجھتا ہے۔

وہ شاید اس بات کا قائل ہو کہ حسن صرف گیسو اور رخسار تک محدود نہیں بلکہ اس کی گہرائی میں روحانی اور اخلاقی خوبصورتی بھی شامل ہے۔

محفل کا عام مزاج:

یہ منظر ایک ایسی محفل کا ہے جہاں لوگ حسن کے ظاہری پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں، جو عام معاشرتی رویہ ہے۔

یہ رویہ شاعر کو اس بات کی طرف مائل کرتا ہے کہ حسن کی تعریف میں زیادہ گہرائی ہونی چاہیے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عام طور پر لوگ حسن کی ظاہری شکل و صورت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، لیکن شاعر شاید اس بات پر غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے کہ حسن کی حقیقت کو گہرائی میں سمجھا جائے۔

خلاصہ:

یہ عبارت انسانی فطرت اور حسن کے ظاہری پہلوؤں پر گفتگو کے عام رجحان کو بیان کرتی ہے۔ شاعر اپنے ساتھیوں کے ظاہری حسن کی تعریف پر مبنی رویے کو اجاگر کرتے ہوئے، شاید ایک گہرے اور حقیقی حسن کی جانب توجہ مبذول کروانے کا اشارہ دے رہا ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button