پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

 گرچہ بہرم,  موج من بیتاب نیست

 گرچہ بہرم,  موج من بیتاب نیست

 برکف من  کاسہ گرداب نیست

 ترجمہ

 اگرچہ میں سمندر میں ہوں میری موجوں میں بے تابی نہیں ہے میرے ہاتھوں پر گرداب بھنور کا کاسا نہیں ہے

 تشریح

یہ عبارت شاعر کی مضبوط شخصیت، سکون، اور خود داری کو ظاہر کرتی ہے۔ شاعر نے اپنے وجود کو سمندر سے تشبیہ دی ہے، جو اپنی وسعت اور گہرائی کے باوجود پر سکون رہتا ہے۔ تشریح کے مطابق:

سمندر کی وسعت اور سکون:

شاعر اپنے آپ کو سمندر سے تشبیہ دیتا ہے، جو ایک وسیع اور گہرا وجود رکھتا ہے۔

اس کے باوجود، اس کی موجوں میں بے تابی یا ہلچل نہیں ہے، جو اس کے مضبوط اور پُرسکون مزاج کی علامت ہے۔

موجوں کی بے تابی کا فقدان:

شاعر اپنی موجوں کو سکون کا مظہر بتاتا ہے، جو بے تابی یا غیر ضروری اضطراب سے پاک ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنی زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود پُرسکون اور باوقار رہتا ہے۔

گرداب یا بھنور کا کاسا نہ ہونا:

"گرداب بھنور کا کاسا” کاسہ بدست ہونے یا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی علامت ہے۔

شاعر واضح کرتا ہے کہ اس کی موجوں میں بے تابی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں پر کاسہ نہیں ہے، یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور خود دار ہے۔

خود داری اور وقار کا اظہار:

شاعر یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کے احسان یا مدد کا طلبگار نہیں ہے۔

اس کا سکون اور خود داری اسے دوسروں کے سامنے جھکنے سے روکتی ہیں۔

موجوں کی بے تابی اور بھنور کا تعلق:

شاعر کے مطابق، موجوں کی بے تابی ہی بھنور پیدا کرتی ہے، لیکن چونکہ اس کی موجیں پرسکون ہیں، اس لیے اس کی زندگی میں نہ بھنور ہے، نہ اضطراب، نہ محتاجی۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی میں سکون، خود داری، اور وقار انسان کو مشکلات اور محتاجی سے بچاتے ہیں۔ شاعر اپنے وجود کو ایک مثالی سمندر کی طرح پیش کرتا ہے، جو اپنی وسعت اور گہرائی میں پُرسکون ہے۔

خلاصہ:

یہ عبارت شاعر کی خود داری، سکون، اور مضبوط شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو سمندر کی طرح وسیع اور گہرا تصور کرتا ہے، لیکن اس کی موجوں میں بے تابی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ شاعر کا یہ پیغام خود مختاری اور وقار پر مبنی ایک زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button