پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

 بار  احساں بر نتا بد  گرد نم

 بار  احساں بر نتا بد  گرد نم

 در گلستان غنچہ گردد دا منم

 ترجمہ

 میری گردن کسی کے احسان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی گلستان میں میرا دامن غنچوں کی مانند ہوتا ہے

 تشریح

یہ عبارت شاعر کی خودداری، غیرت، اور عزت نفس کا بھرپور اظہار کرتی ہے۔ شاعر نے اپنی زندگی کے اصولوں کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ تشریح کے مطابق:

احسان کا بوجھ برداشت نہ کرنا:

شاعر کہتا ہے کہ اس کی گردن کسی کے احسان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی پر انحصار کرنے یا کسی کا احسان لینے کو اپنی غیرت اور عزت نفس کے خلاف سمجھتا ہے۔

گلستان میں دامن کو غنچوں کی مانند بند رکھنا:

شاعر اپنی خودداری کو بیان کرنے کے لیے گلستان کی مثال دیتا ہے، جہاں وہ اپنے دامن کو غنچوں کی طرح بند رکھتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ وہ کبھی کسی کے سامنے دامن نہیں پھیلاتا اور اپنی ضروریات کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتا۔

غیرت اور خودداری کا مظاہرہ:

شاعر کے الفاظ اس کی غیرت اور خود مختاری کی عکاسی کرتے ہیں۔

وہ کسی کے احسان کو قبول کرنے کے بجائے اپنے اصولوں پر قائم رہنا پسند کرتا ہے۔

گلستان کی تشبیہ:

"گلستان” زندگی کی خوبصورتی اور فراوانی کی علامت ہے، جہاں شاعر اپنے دامن کو غنچوں کی مانند بند رکھ کر خودداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔

یہ تشبیہ شاعر کے کردار کی نزاکت اور عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔

کسی کے سامنے دامن نہ پھیلانا:

شاعر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس کی غیرت نے کبھی اسے یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی کے سامنے دامن پھیلائے۔

یہ ایک اصولی زندگی گزارنے کی علامت ہے، جہاں انسان اپنی عزت نفس اور خودداری کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں سکھاتی ہے کہ عزت نفس اور خودداری انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ کسی کا احسان لینے کے بجائے اپنے بل بوتے پر جینا ایک باوقار زندگی کا مظہر ہے۔

خلاصہ:

یہ عبارت خودداری، غیرت، اور اصولی زندگی کا پیغام دیتی ہے۔ شاعر کسی کا احسان لینا اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھتا ہے اور زندگی میں اپنے دامن کو غنچوں کی مانند بند رکھ کر خودمختاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ الفاظ ایک خوددار اور باوقار شخصیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button