پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

 اے نظر بر حسن ترسا زادہ

 اے نظر بر حسن ترسا زادہ

 اے ذر راہ کعبہ دور افتادہ

 ترجمہ

اے وہ (امت!)  کہ تو نے اہل کلیسا کے حسن (علوم) پر نظر رکھی ہوئی ہے.   اےوہ (امت!) کہ تو اس سبب سے راہ کعبہ سے بہت دور جا پڑی ہے.

 تشریح

یہ عبارت امت مسلمہ کو ان کی غلط سمت اور گمراہی پر متنبہ کرتی ہے، جہاں انہوں نے اپنی اصل منزل کو چھوڑ کر دوسروں کے علوم اور راستوں پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔

شعر کے مطابق:

اہل کلیسا کے علوم پر توجہ:

یہاں "اہل کلیسا” سے مراد عیسائی، پادری، اور مغربی اقوام ہیں، جن کے علوم اور نظریات نے امت مسلمہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

شاعر نے امت مسلمہ کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ ان علوم پر نظر رکھنا، جو ان کی فلاح کے لیے نہیں، ایک غلط رویہ ہے۔

منزل سے بھٹک جانا:

امت مسلمہ کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی اصل منزل یعنی "راہِ کعبہ” سے دور ہو چکی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امت نے اپنے دین، اقدار، اور مقصد کو چھوڑ کر دوسروں کی تقلید شروع کر دی ہے، جو انہیں کامیابی کے بجائے مزید گمراہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

غیر ضروری علوم کی پیروی کی مذمت:

شاعر نے ان علوم کی مذمت کی ہے جو امت مسلمہ کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں اور جو انہیں ان کے اصل مقصد سے دور کر دیتے ہیں۔

امت مسلمہ کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ وہ اپنی عظمت کو بحال کر سکے۔

راہِ کعبہ کی طرف واپسی کی ضرورت:

یہ عبارت امت کو اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ ان کا راستہ اللہ کی ہدایت، قرآن، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی ہے۔

راہِ کعبہ، دین اسلام کی راہ ہے، جو ہر قسم کی کامیابی اور فلاح کی ضمانت دیتی ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امت مسلمہ کو اپنی سمت درست کرنی چاہیے اور مغربی یا غیر اسلامی نظریات اور علوم کو اندھا دھند اپنانے کے بجائے، اپنے دین کی تعلیمات پر توجہ دینی چاہیے۔

خلاصہ:

یہ عبارت امت مسلمہ کو ان کی اصل منزل یاد دلانے اور مغربی نظریات کی غیر ضروری تقلید سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ امت کو چاہیے کہ وہ دین اسلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کرے اور اپنی منزل کو پہچانے، تاکہ وہ بھٹکنے کے بجائے اپنی عظمت کو بحال کر سکے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button