پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

اے فلک مشت غبار کوے تو

اے فلک مشت غبار کوے تو

اے تماشہ گاہ عالم روئے تو

 ترجمہ

اے وہ امت (مسلمان) کہ آسماں تیری پر نور گلی کا غبار ہے.اے وہ امت (مسلمان) کہ تیرا روئے پر نور دنیا کے لیے تماشہ گاہ ہے

 تشریح

 اے امت تو نہیں جانتی کہ آسمان تیرے ہی نور سے روشن گلی کا غبار ہے اور دنیا تیرا نور بھرا روشن چہرہ دیکھتی ہے کہ تو کیا کرتا ہے تیرے پاس ان نعمتوں کا وسیلہ کیا ہے.

یہ عبارت امت مسلمہ کے عظیم روحانی مقام اور ان پر اللہ کی خاص عنایتوں کو بیان کرتی ہے۔ شعر کے مطابق:

آسمان، امت کے نور کا غبار:

یہاں امت مسلمہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ ان کے وجود اور نور کی روشنی سے آسمان تک منور ہے۔

یہ ایک تشبیہ ہے جو امت مسلمہ کے بلند مقام اور ان کے کردار کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

دنیا کے لیے تماشہ گاہ:

امت مسلمہ کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا روشن چہرہ اور اعمال دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔

دنیا امت مسلمہ کے کردار، عمل، اور دین پر چلنے کے طریقے کو دیکھتی ہے، اور یہ ان کے لیے ایک ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کردار کو بہترین بنائیں۔

اللہ کی عطا کردہ نعمتیں:

شاعر نے امت مسلمہ کو یہ یاد دلایا ہے کہ ان کے پاس اللہ کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں، جن کے ذریعے وہ دنیا کے لیے روشنی اور ہدایت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

امت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان نعمتوں کا وسیلہ کیا ہے اور ان کا شکر کیسے ادا کرنا ہے۔

امت کا شعور اور کردار:

یہ شعر امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی عظمت اور اللہ کی دی ہوئی ذمہ داری کو پہچانیں۔

ان کے کردار اور عمل سے دنیا کو ہدایت مل سکتی ہے، اور وہ دین اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر:

یہ شعر امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ روشنی اور عظمت کے حامل ہیں، اور ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے سامنے بہترین اخلاق اور کردار کا مظاہرہ کریں۔

خلاصہ:

یہ عبارت امت مسلمہ کی عظمت اور ان پر اللہ کی خاص نعمتوں کو بیان کرتی ہے۔ انہیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کا مقام بلند ہے، اور ان کا کردار دنیا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ انہیں اپنی روشنی اور نعمتوں کا شعور رکھتے ہوئے دنیا میں ایک مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button